ریل کا سفر اگر لمبا ہو تو بوریت کا احساس ہونا فطری ہے۔ اسی بوریت سے بچنے کے لئے چند سال پہلے تک اکثر لوگ سفر میں اپنے ساتھ تاش، لوڈو اور شطرنج جیسے انڈور گیمس لے جایا کرتے تھے۔ اس کا مزہ کئی ریل مسافر ایک ساتھ مل کر لیا کرتے تھے۔ لیکن اب یہ بات گذرے زمانے کی لگتی ہے۔ پہلے جہاں لمبے لمبے سفر ان کھیلوں کو کھیلتے ہوئے بغیر کسی بوریت کے آسانی سے کٹ جایا کرتے تھے۔ انجانے ساتھ کے مسافروں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اچھی خاصی جان پہچان، دوستی کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔ وہیں فی الحال انٹرنیٹ، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کی دنوں دن بڑھتی ہوئی بھیڑ میں وہ سارے کھیل کہی گم سے گئے ہے۔
موبائل فون کے بڑھتے چلن کے ساتھ ہی ریل مسافروں نے اپنے لمبے سفر کو اکیلے کاٹنے کے بہت سے نئے طریقے تلاش کرلئے ہیں۔ اب لوگو کے موبائل میں ہی تاش، لوڈو، شطرنج کے علاوہ بے شمار گیمس ہیں جسے وہ اکیلے کھیل کر خوش ہے۔ انہیں نہ ہی کسی ساتھی مسافر کی ضرورت ہے، نہ ہی ایکسٹرا پیسے خرچ کر تاش، لوڈو یا شطرنج خریدنے کی۔ ساتھ ہی اب سفر میں لوڈو یا شطرنج کی گوٹي کھونے کا ڈر بھی نہیں جس وجہ سے ریل مسافر اکثر لوگ اسپیشل میگنیٹ والی چیس خریدا کرتے تھے۔ موسیقی کے شائقین کے لئے تو موبائل میں بھرے ان کے پسندیدہ گانے، نغمے ہی سب سے اچھے ٹائم پاس کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ وہی فلموں کے دیوانوں کا کیا کہنا جو سفر سے پہلے اپنے موبائل، ٹیب اور لیپ ٹاپ کی ہارڈ ڈسک نیو موویز سے بھر کر چلتے ہیں۔
حالانکہ اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ موبائل فون کوئی بے مطلب کی چیز ہے۔ بلکہ سفر کے دوران تو اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس میں اپ جدید موبائل ایپ وقت پڑنے پر کافی کام بھی آتے ہیں۔ لیکن اگر بات اس سے ہونے والے تفریح کی کریں تو موبائل فون سے ہونے والا زیادہ تر تفریح ذاتی تفریح ہے۔
اس میں وہ ٹولی والا سکھ نہیں ملتا جس میں چار پانچ لوگوں کی ٹولی کھیلتی تھی اور باقی کے ریل مسافر کھیل کا مزہ ناظرین بن کر لیا کرتے تھے۔ جس دوران ایسے کئی واقعات خود پیدا ہوتی تھی جس سے مسافروں کے درمیان ایک انوکھا رشتہ قائم ہو جاتا تھا۔ جیسے کہ کھیل کے دوران کسی ایک مسافر کو باقی کے ساتھی مسافروں کو اپنی جیت کی خوشی میں چائے پلانا، مونگ پھلی اور سموسے کھلا کر اپنا پن جتانا۔ اب ایسے نظارے کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ ریل سفر کی یہ ساری مستی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ آج بھی ملک کے کئی حصوں میں روزانہ ڈیوٹی کے لئے ریلوے کا استعمال کر ایک ریلوے اسٹیشن سے دور کسی دوسرے ریلوے اسٹیشن جانے والے نوكری پیشہ لوگوں نے اس روایت کو زندہ رکھا ہے۔ بات اگرچہ ممبئی کی لائف لائن کہی جانے والی لوكلس کی ہو یا پھر کولکتہ کی لوکل ٹرینوں کی، ہزاروں کی کھچا کھچ بھری بھیڑ میں آج بھی آپ کو ایسے کئی ٹولے روزانہ دیکھنے کو مل جائیں گے جن کے سفر کا آغاز ہی تاش کی بازی کے ساتھ ہوتا ہے۔
کھیلتے ہوئے روزانہ کے سفر کے یہ انجانے مسافر کب ایک دوسرے کی زندگی کا اہم حصہ بن جاتے ہیں یہ انہیں خود بھی نہیں پتہ چل پاتا۔ سیٹ گھیر کر ساتھیوں کے آنے کا انتظار کرنا، کھیل کے دوران باہمی سکھ دکھ سے لے کر ملک و دنیا کی باتیں کرنا۔ کام اور خاندان کا ٹینشن چائے کی گرم چُسكيو میں گھول کر پی جانا ان کے روزانہ کے سفر کا حصہ ہوتے ہیں۔ایسے میں کچھ وقت کے لئے ہی سہی ان کا روزانہ سفر ہنسی ٹھٹھولي کرتے ہوئے کٹ جاتا ہے۔ جبکہ ہاتھوں میں اسمارٹ فون کا سفر اکیلے کاٹ پانا آج بھی آسان نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اسمارٹ فون، ٹیب یا لیپ ٹاپ کے ساتھ سفر کا سکھ نہیں مل پاتا ہو۔ لیکن پھر بھی تاش کے کھلاڑیوں کی ہلہ مچاتی ٹولی، سانپ سیڑھی کے کھیل کی دلچسپی، اور شطرنج کی بازی میں اپنے بادشاہ کو بچانے کے لئے ہونے والی دماغی ورزش کا اپنا ہی مزہ ہوتا تھا۔ جو اب کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسے میں یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ ریل سفر کے ان قیمتی لمحات سے بے خبر آج کی نسل کے لئے یہ سارا مزہ کسی ایسے ریل سفر کی طرح اجنبی ہے جس طرف وہ کبھی گئے ہی نہیں۔