روزانہ تقریبا 1.6 ملین ممبئی كروں کو ڈھونے والی ممبئی کی لائف لائن ‘لوکل ٹرینس‘ دنیا کی سب سے زیادہ مسافر کثافت والی مضافاتی ریل سروس ہے۔ اس بات کو جاننے کے بعد زیادہ تر لوگوں کے دماغ میں جو پہلا خیال آتا ہے، وہ ہوتا ہے- پلیٹ فارم پر زبردست بھیڑ کا ریلا اور کھچا کھچ بھرے ریل کے ڈبے، جن کے بارے میں سوچ کر ہی پیشانی پر پسینہ آ جائے۔ جبکہ اس بھیڑ میں سفر کرنے والے ہزاروں ممبئی كروں کی زندگی سے جڑی ایسی کئی چیزیں ہیں جنہیں ایک ممبئی كر ہی بہتر سمجھتا ہے۔ چلئے آپ کو بھی روبرو کراتے ہیں ممبئی كروں کی زندگی کی لائف لائن اور اس سے منسلک روزانہ کے کچھ دلچسپ تجربات سے–
ڈبےوالے
پوری دنیا میں اپنے انوکھے ڈلیوری سسٹم کے لئے مشہور ممبئی کے ڈبےوالو کی کامیابی کی بنیاد میں لوکل ٹرینوں کی اہم حسہ داری ہے۔ کبھی نہ سونے والے ممبئی شہر میں روزانہ20,000 کھانے کے ڈبوں کی وقت پر ڈلیوری کے لئے یہاں تقریبا 5,000 ڈبےوالے ہیں۔ واضح رہے کہ تقریبا ہر ٹرین میں ان کے لئے ریزرو کوچ ہے۔ یہ ڈبےوالے انہی ریزرو کوچ کی مدد سے کھانے کے ہزاروں کمپارٹمنٹ کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جاتے ہیں۔ وہیں اپنے شاندار مینجمنٹ سسٹم اور کوڈ لینگوئج کے ہنر سے تمام ڈبوں کو صحیح لوگوں تک پہنچاتے بھی ہے۔
کہیں خریداری تو کہیں کھانے کی تیاری
کہنا نہ ہوگا کہ ممبئی كروں کا وقت بڑا قیمتی ہے اس لئے یہاں کے زیادہ تر ممبئی كر شام کو لوٹتے وقت ٹرین میں پھیری والوں سے ہی اپنی ضرورت کے کئی اشیاء خرید لیتے ہیں۔ جس سے انہیں دوبارہ مارکیٹ نہ جانا پڑے۔ ممبئی كروں کے اس مارکیٹ میں خواتین کی خاص حصہ داری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ روزانہ کے سفر میں وقت کے بہتر استعمال کا ایک اور حیرت انگیز استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔ كم وبیش تمام ٹوکری میں سفر کر رہی خواتین اپنے کچن میں بنانے والی سبزی کی تیاری بھی سفر سے شروع کر دیتی ہے۔ دفتر سے لوٹتے وقت یہ خواتین گھر کے لئے خریدی گئی سبزی کو وہیں چھیل کاٹ لیتی ہےیقین مانئے وقت کے مینجمنٹ کا ایسا نایاب نظارہ بس ممبئی کی لوکل میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
بھجن منڈلی
ممبئی كر وجے اروامودھن کے مطابق- آپ کو شاید کسی مندر میں اتنے وفادار ایک ساتھ نہ دیکھنے کو ملے جتنے ممبئی کی لوکل میں بھجن كیرتن کرتے نظر آجائے۔ روزانہ ایک ہی روٹ پر یا پھر ایک ہی لوکل سفر کرنے والے سینکڑوں ممبئی كروں نے تقریبا ہر گاڑی میں اپنی ایک بھجن منڈلی بنا رکھی ہے۔ جس کے رکن 25 سال کے نوجوان سے لے کر 60 برسوں کے بزرگ تک ہیں۔ روزانہ سجنے والی اس منڈلی کا آغاز بھجن-كیرتن سے اور اختتام پرساد تقسیم کےذریعہ ہوتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پرساد ان مسافروں کو بھی بڑے پیار اور احترام دیا جاتا ہے جو منڈلی کا حصہ نہیں ہوتے ہیں یا پھر کسی اور مذہب کے پیروکار ہے۔ لوکل ٹرینوں میں بنے اس طرح کی منڈلی کے پیچھے ایک مقصد جہاں پربھو بھکتی ہے تو وہیں کئی لوگ اسے لمبے سفر کاٹنے کا ذریعہ مان کر بھی اس سے جڑ جاتے ہیں۔
تاش کے شوقینوں کا گروپ
ممبئی لوکل سفر کے دوران آپ کو کئی ایسے ٹولے مل جائیں گے جو تاش کے پتوں کی بازی بچھائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ روزانہ ان کا یہ کھیل بہت لمبا چلتا ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جہاں زیادہ تر ممبئی كر بھیڑ میں کھڑے ہو کر سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں یہ ٹولے آرام سے اپنے بیٹھنے اور کھیلنے کا مناسب جگہ تلاش ہی لیتے ہے۔
لڑتے جھگڑتے مسافر
روزانہ کے سفر میں یہ بھی روزانہ والی بات ہے۔ ممبئی كر یوگیش سُكھیجا کی بتاتے ہیں کہ جیسے ہی دو لوگوں کے درمیان کسی بات کو لے کر بحث بازی شروع ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے فٹ بال ورلڈ کپ کا فائنل میچ شروع ہو گیا ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی دو لوگ آپس میں بحث شروع کرتے ہیں پاس کھڑے سینکڑوں شخص اپنی اپنی سمجھ سے دلیل دیتے ہوئے بحث میں شامل ہوجاتے ہیں۔ کچھ مسافر جہاں کسی ایک کے حق میں ہوتے ہیں تو باقی دوسری طرف۔ وہیں کئی لوگ صرف ناظرین کی طرح چپ چاپ پوری بحث دیکھ کر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ اگرچہ ہر بار کوئی شریف آدمی ریفری کا کردار ادا کر جھگڑےکو ختم کرا دیتا ہے۔
ایسے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بھیڑ سے بھری ممبئی لوكلس میں بھیڑ کے جماوڑے کے علاوہ تفریح کرنے کو اور بھی کئی قصے موجود ہے۔
Originally written by Aakash Karnani. Read here