پرانی دلی کے مناظر ہمیشہ سے حیرت انگیز رہے ہیں. اور اس کا دوسرا پہلو بھی ہے یعنی یہاں ہر سائز میں لال اور پیلے رنگ کے مرچوں کے بیشمار سوتی کی بوریوں کا ڈھیر نظر آجائیگا، جو صدیوں پرانی ان دکانوں کی دیواروں کے پاس لادے جاتے ہیں. جو گہری اور قدیم گوداموں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں. اسی کا نام کھاری باولی ہے جو ایشیا میں مسالہ کی سب سے بڑی مارکیٹ شمار کی جاتی ہے.
لال قلعہ کے قریب اور جامع مسجد کے بغل اور چاندنی چوک کے مغربی کنارے پر واقع کھاری باولی کے ساتھ بہت سی تاریخی باتیں جڑی ہوئی ہیں. یہاں کچھ ایسے منفرد حقائق ہیں جن کے بارے میں آپ کو اس وسیع مسالا مارکیٹ کے بارے میں کبھی نہیں معلوم رہا ہوگا.
یہ چار صدی پرانی ہے
کھاری بولی بازار کی تعمیر فتح پوری مسجد کی (1650 میں) تعمیر کے وقت ہی ہوئی تھی. جس کو شاہ جہاں کے فتح پوری نامی بیگم کے بنوایا تھا. اسے کھاری باولی کے طور پر جانا جاتا ہے کیونکہ کھاری کا مطلب نمکین اور باولی کا مطلب سیڑھیوں والا کنواں ہوتا ہے. 1930 ء میں، بہت سے خاندان پنجاب سے دہلی سے منتقل ہوئے تھے اور دہلی کے مختلف علاقوں میں آباد ہو گئے تھے. ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے کھاری باولی اور قریبی بازاروں میں اپنی دکانوں کا کام شروع کیا تھا.
اصلی ‘مسالا’ کی جگہ –
ایشیا کی سب سے بڑی مسالا مارکیٹ آپ کو مقامی اور غیر ملکی دونوں طرح کے انواع واقسام مصالحوں کو منتخب کرنے کا آپشن فراہم کرتی ہے. یہاں تک کہ کشمیر کے خشک آلوچے اور افغانستان کے شہتوت، یہ ایک پریشان کن منظر ہوتا ہے، مارکیٹ میں آپکے داخل ہونے کے بعد مختلف مصالحے اور خشک پھلوں، یعنی ہر ایک کی اچھی بو کے ساتھ داخلہ ہوتا ہے.
بے انتہا عمدہ –
یہاں پر آئیورویدک جڑی بوٹیوں اور ادویات کے بے شمار اقسام دستیاب ہیں. وہ آپکو معدنیاتی اشیاء کے مانند لگیں گے لیکن اصل میں نایاب جڑی بوٹیاں اور ادویات ہیں جو کچھ خاص بیماریوں کے علاج کے کام آتی ہیں. دیوالی سے پہلے، مارکیٹ میں لوگوں کا آنا شروع ہو جاتا ہے خاص طور پر خشک پھلوں کی خریدار کے لئے.
افراتفری کے دوران آرڈر –
تنگ گلیوں اور ازدحام بھرے سڑکوں کے درمیان، محنتی دکان دار ہر صبح اپنے دکانوں کے گودام کو صاف ستھرا کرتے ہیں اور اپنے روزانہ کاروبار کے لئے تیار کرتے ہیں. ہر صبح، کھاری باولی کی قدیم سڑکوں میں زندگی آتی ہے. اگر آپ کو رات میں ایک ہی لین کو پار کرنے کا موقع ملتا ہے، تو منظر صرف تمام شٹرکے نیچے کے برعکس ہوگا. لہذا ہر صبح ان سٹالوں کی ترتیب دیکھنے کے قابل ہوتی ہے.
تہواری خریداروں کے لئے بہترین جگہ –
کھاری باولی کو نہ صرف یہ کہ ایشیا کی سب سے بڑی مسالا مارکیٹ ہونے کا امتیاز حاصل ہے بلکہ ممکنہ طور پر یہ ایسی جگہ ہے جہاں دلی کے زیادہ تر لوگ تہواروں کے موسم میں تحائف جیسے خشک پھل وغیرہ لینے آتے ہیں. متعدد ڈیزائنوں میں خشک پھل خانوں میں بطور نمائش لگے رہتے ہیں، جن کی قیمت 50 سے لیکر 2500 تک ہوتی ہے. مارکیٹ میں راجستھان اور چین کے کشمش سے لیکر کیلی فورنیا اور کابل کے بادام ممنوع ہونے کے باوجود -ٹرے میں پیوست کر کے سجائے ہوئے- دستیاب رہتے ہیں. دیوالی کے دوران کھاری باولی کی گلیوں میں بہت زیادہ بھیڑبھاڑ ہو جاتی ہے کیونکہ یہاں اچھے سامان اچھی قیمتوں میں دستیاب ہوتے ہیں.
لین اور ذیلی لین –
کھاری باولی کی سڑکوں پر ٹہلنا ایسے ہی ہے جیسے کہ آپ کسی بھول بھلیا میں راستہ تلاش کر رہے ہوں. یہاں لامتناہی لین اور ذیلی لین ہیں. ہزاروں طرح کے مسالوں کے اس مارکیٹ کے ہر کونے اور کنارے پر آپ کو کچھ منفرد قسم کے ذخیرے ملیں گے.
تبدیلی کے اس دور میں جہاں پرانی دنیا اونچی عمارتوں اور شاپنگ مالوں میں غائب ہو رہی ہے، کھاری باولی ہمارے عمدہ ماضی کے عہد کا شاہکار ہے. انفرادیت سے بھرا ہوا، یہ گرینڈ بازار پرانی دہلی کی سڑکوں اور گلیوں کے ذریعے ہماری عمدہ ثقافت کی عکاس ہے.