اتر پردیش کے ضلع سون بھدر کے رابرٹس گنج سے تقریبا 30 کلومیٹر کے فاصلے پر بلند پہاڑوں پر واقع وجے گڑھ کا قلعہ آج بھی لوگوں کو اپنی کشش سے حیران کر دیتا ہے۔ یہ وہی قلعہ ہے جس کی بنیاد پرعظیم ناول نگار دیوکی ندن کھتری نے چندركانتا کی تخلیق کی تھی۔ دراصل چندركانتا کی خوبصورت اداکارہ راجکماری چندركانتا اسی وجےگڑھ کی رہنے والی تھیں۔ مقبول کہانی کے مطابق
وجےگڑھ کے پاس نوگڑھ (چندولی) ہی وہ مقام ہے جہاں کےراج کمار وریندر سنگھ کو وجےگڑھ کی شہزادی چندركانتا سے محبت ہو گیا تھا۔ لیکن دونوں راج خاندانوں کے درمیان دشمنی تھی۔
وجے گڑھ کا قلعہ
تقریبا چار سو فٹ اونچے پہاڑ پر ہریالی کی گود میں واقع یہ پراسرار قلعہ کی اونچائی سے یہاں آنے والوں کی دلچسپی میں اضافہ کرتا ہے۔ موگائوں میں بنے اس قلعہ تک روڈ ٹرانسپورٹ کے علاوہ سيڑھي نما راستوں سے بھی ہو کر پہنچا جا سکتا ہے.۔ یہاں مہاتما بدھ سے منسلک باقیات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ قلعہ میں داخل ہوتے ہی سامنے حیران کر دینے والا ایک بہت بڑا میدان ہے۔ تاہم قلعہ کی ماضی کے بارے میں بہت مستند معلومات دستیاب نہیں ہے، لیکن تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اس کی تعمیر پانچویں صدی میں بھٹ حکمرانوں نے کرایا تھا۔ وہیں کچھ تاریخ دانوں کا دعوی ہے کہ اس کی تعمیر پندرہ سو سال قبل بھٹ حکمرانوں نے کروایا تھا۔ بعد میں کئی بادشاہوں نے اس پر حکومت کی تھی۔ کاشی کے راج چیت سنگھ برٹش دور تک اس قلعہ پر قابض تھے چندیلوں کے ذریعہ بھی یہاں کا راج کاج سنبھالنے کا ذکر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کول خاندان کے بادشاہ وقتا فوقتا قلعہ کی مرمت کراتے رہتے تھے۔
قابل دید سپت سروور
یہاں کے سپت سروور آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کافی اونچائی پر ہونے کے بعد بھی ان میں پانی کہاں سے آتا ہے اور دو آبشاروں رام ساگر اور ميرساگر میں کس طرح پانی کبھی نہیں سوكھتا واقعی ایک راز ہے۔ رام ساگر کو لے کر تو بہت دندان کہانیاں بھی مقبول ہیں۔ کہتے ہیں کبھی کبھی اس میں ہاتھ ڈالنے پر برتن مل جایا کرتے تھے اور لوگ اسی میں کھانا بناتے تھے۔ اس کی گہرائی کا اندازہ آج بھی نہیں لگایا جا سکا ہے۔ لوگوں نے یہاں موجود آبشاروں کو بھی ہندو اور مسلمان میں بانٹ رکھا ہے۔ اسی بنیاد پر ایک نام رام ساگر ہے تو دوسرے کا نام ميرساگر ہے۔
مندر اور مزار
یہاں ایک مزار اور شیو مندر بھی ہے۔ قلعہ میں مسلم صوفی سید زین العابدین میر صاحب کی قبر ہے، جو حضرت ميران صاحب بابا کے نام سے مشہور ہیں۔ ہر سال یہاں اپریل میں سالانہ عرس منعقد ہوتا ہے۔ میلے میں تمام مذہب کو ماننے والے شامل ہوتے ہیں۔ وہیں شیو مندر میں ہر سال ساون میں لوگ كانور چڑھانے آتے ہیں۔ تمام كانوريے رام ساگر سے پانی بھر کر بھگوان شیو پر چڑھاتے ہیں۔
دبا ہوا ہے بے شمار خزانہ
مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ اس قلعہ کے نیچے ایک اور قلعہ بھی ہے، جہاں بے شمار خزانہ دبا ہوا ہے۔ خزانہ تلاش کرنے کے لئے کئی بار آدھی رات میں لوگوں کو مشعل لے کر قلعہ کی جانب جاتے دیکھا گیا ہے۔
موجودہ صورت حال
فی الحال اس قلعہ کی صورت حال بہت خراب ہے۔ یہاں کچھ خفیہ غاروں میں کندہ پتھر اور نقاشی آپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لیتی ہے۔ جو اس کی تاریخ کو تو بیاں کرتی ہی ہیں ساتھ ہی اس کے رکھ رکھاؤ پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی لگاتی ہیں۔ ضرورت ہے اس انمول ثقافتی ورثہ کو محفوظ کرنے کی کیونکہ جس طرح سے یہ قلعہ ایک کھنڈرات میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے، اس سے تو یہی لگتا ہے کے کچھ سالوں بعد یہ ٹوٹ کر بکھرے ہوئے پتھروں کا ڈھیر بن جائے گا۔