بھوپال کو جاننے والے، اس شہر کو جھیلوں کے شہر سے زیادہ نہیں جانتے۔لیکن بیگمات اور نوابوں کی ادبييت میں رہے بھوپال کی چھوٹی بڑی جھیلوں کے کنارے سنہری تاریخ کے بہت سے رنگ بکھرے پڑے ہیں۔ پہناوے، کھانے پینے کے ساتھ اس نوابی شہر کادريچہ اس عمارت میں بھی کھلتا ہے جو ایک بیگم کی محبت کی آخری نشانی تھی۔
کم لوگ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں دو تاج محل ہے۔پہلے شاہجہاں کا بنایا آگرہ کا تاج محل اور دوسرا بیگم شاہجہاں کی تعمیر بھوپال کا تاج محل۔ اتفاق دیکھئے کہ دونوں ہی شاہکار شاہجہاں نام کی دو شخصیتیں تھیں جن کے بنائے دونوں ہی تاج محل کی مینار محبت کا پرچم بلند کرتی معلوم پڑتی ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ ایک تاج محل بیگم ممتاز کی قبر ہے اور دوسرا تاج محل بیگم شاہجہاں اور نواب صدیق حسن کی محبت سے گلزار زندگی کے آغاز کا گواہ۔
تاج محل … شاہجہاں بیگم کا زمین پر اترا خواب
تیرہ سال بعد بن کر تیار ہوئے اس تاج محل کی بنیاد سن 1870 میں رکھی گئی تھی۔ قریب سترہ ایکڑ میں پھیلا یہ تاج محل شاہجہاں بیگم کی محبت کا آشیانہ تھا۔ جہاں وہ نواب صدیق حسن کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتی تھی۔ سمجھا جاتا ہے کہ اس دور میں اسے بنوانے میں محض تیس لاکھ کا خرچ آیا تھا۔ جنشروتيوں کے مطابق صدیق حسن شاہجہاں بیگم کے ساتھ یہاں طویل وقت نہیں گزار پائے۔ جبکہ شاہجہاں بیگم نے تاج محل میں اپنی آخری سانس لی تھی۔
… تاکہ دیکھ سکیں خدا کا گھر
بیگم کا خواب تھا کہ وہ تاج محل سے خدا کا گھر دیکھ سکیں اسی لئے بیگم نے ایشیا کی دوسری سب سے بڑی تاجل مسجد کی ميناریں کھڑی كروائی۔ ساتھ ہی تاج محل کی کھڑکیاں بھی اس طرح کے بنوائے کہ وہاں سے تاجل مسجد صاف صاف دکھائی دے۔ اب بھی تاج محل سے مسجد کا دیدار ویسے ہی ہوتا ہے۔
سندھيوں کی پناہ گاہ
حالانکہ جس طرح سے آگرہ کے تاج محل کا رکھ رکھائو ہوا۔ بھوپال کے اس تاج محل کو وہ ساز سنبھال کبھی نصیب نہیں ہو سکا۔ نوابوں کا دور گزر جانے کے بعد طویل وقت تک یہ تاج محل تقسیم کے بعد صوبہ سندھ سے آئے سندھيوں کی پناہ گاہ بنا رہا۔ اس دوران تاج محل کے کئی حصے ان پناہ گزینوں کے رہتے ہی خراب ہو چکے تھے۔ دروازوں پر لوہے اور پیتل کی نقاشیاں تھیں جسے بعد میں لوگ نکال کر لے گئے۔
بلند دروازہ
تاج محل میں داخل ہونے پر ایک جھروكھا سا ہی کھلتا ہے، یعنی دروازے کے اندر اندر بنا ایک چھوٹا دروازہ “بلند دروازہ” جسے پورا کھول پانا آسان نہیں۔ اس دروازے کا وزن ہاتھی کے برابر ہے اور مضبوطی بھی تقریبا اتنی ہی۔ لہذا مکمل دروازہ اس وقت بھی خاص موقعوں پر ہی کھلتا تھا اور اب بھی۔
یہاں ساون بھادو – موسم نہیں، ایک حصہ ہے تاج محل کا
یہاں جیٹھ-بیساکھ کے دنوں میں بھی ساون سا احساس ہوتا ہے۔ شاہجہاں بیگم چاہتی تھیں کہ صدیق حسن اور وہ جب چاہیں، برسات اپنی پوری تاب کے ساتھ تاج محل میں اتر آئے، برس جائے۔ اس لئے ساون بھادو کے حصے کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ اس کے درمیان سے گزرتے وقت دونوں طرف جھرنے گرتے ہے کہ جیسے برسات کی جھڑی سی لگی ہو۔ اندازہ لگائیے اس دور کی کاریگری کے کرشمے کا۔
شیش محل ہے تاج محل کی دوسری خوبی
نام کے مطابق تاج محل کے اس پورے حصے میں شیشے کی نقاشی ہے۔ نوابی دور ختم ہو جانے کے بعد سب سے زیادہ نقصان بھی تاج محل کے اسی حصے کا ہوا۔ حالانکہ حکومت نے اسے دوبارہ وہی رنگت دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
بری نظر سے بچانے کا ٹوٹکا
کہتے ہیں کی بیگم شاہجہاں نے اس محل کی تعمیر اپنی دیکھ ریکھ میں کروایا تھا۔ جیسے کوئی ماں اپنے بچے کی پرورش کرتی ہے۔ لہذا انہیں فکر تھی کہ ان کی محبت کی اس نشانی کو کسی کی نظر نہ لگے۔ اس کے لئے بیگم نے محل کے دروازے پر سورج کی طرف منہ کر کے ایک بڑا سا آئینہ لگوا دیا تھا تاکہ جو کوئی بھی بری نظر سے تاج محل کو دیکھے گلاس سے ٹکراکر آتی سورج کی کرنوں سے اس کی آنکھیں چوندھيا جائے۔ اگرچہ تاج محل کو بری نظر سے بچانے کی یہ کوشش بھی بیگم کے ساتھ ہی ختم ہو گئیں۔
آج یہ تاج محل، ایک بیگم کی محبت کی آخری نشانی سیاحوں کے انتظار میں خاموش کھڑا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ شاہجہاں کی ممتاز بیگم سے بے انتہا محبت کی نشانی آگرہ کا تاج محل پوری دنیا میں محبت کی مثال بن گیا اور ایک نواب سے بے انتہار محبت کرنے والی ایک بیگم کی ضد میں کھڑی ہوئی یہ عمارت صدیوں سے گمنام ہی رہیں۔ اور دفن ہوتی رہیں اس کی دیواروں میں صدیق حسن اور شاہجہاں بیگم کے عشق کی کہانیاں۔
Originally written in Hindi by Shifalee Pandey. Click here to read