کہتے ہیں کہ جس میں محبت کا اظہار جڑ جائے وہ قیمتی ہو جاتا ہے۔ محبت وہ احساس ہے جس میں ڈوب کر حروف سے تخلیق ہر شاعری، پتھروں کو تراش کر پیدا ہوتا ہر عمارت امر ہو جاتا ہے، بول پڑتی ہے۔ بھارت میں محبت کی نشانیاں آگرہ سے شروع ہوکر آگرہ میں ہی ختم نہیں ہو جاتی بلکہ محبت کی یہ کہانیاں پتھروں پر اتر تاریخ میں درج ہو آگے بڑھتی جاتی ہیں.۔ پڑھیے مالوا کی ایک ایسی ہی امر محبت کی کہانی کے بارے میں …
جانیے کیوں گمنام رہا یہ خوبصورت مندر
ویسے تو مدھیہ پردیش کا نرسنه گڑھ ضلع اس کی قدرتی خوبصورتی کے لئے مالوا کا کشمیر کہلاتا ہے۔ یہاں کا چڑيكھوں زولوجی پارک ملک بھر میں مشہور ہے۔ دور دور سے سیاح سکون کی تلاش میں یہاں چلے آتے ہیں۔ یہاں آئے زیادہ تر سیاحوں کا سفر اس کی قدرتی خوبصورتی دیکھ کر ہی پوری ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ اسی وجہ سے سانكا شیام مندر سینکڑوں سالوں تک گمنام رہا۔
ایک رانی کی محبت کی نشانی …
اپنے شوہر سانكا کے مہاراجہ “شیام سنگھ كھنچي” کی یاد میں رانی بھاگيوتي کے ذریعہ تعمیر یادگاری سانكا شیام مندر امرمحبت کی ایک ایسی ہی خوبصورت نشانی ہے۔ اسے مالوا کا تاج بھی کہتے ہیں۔ یہ 16 ویں صدی کی عظیم الشان مندر ہے يہاں شيام جي کی ایک سنگ مرمر کی نہایت خوبصورت بڑی مورتی قائم ہے۔ سرخ پتھر سے بنے اس مندر کے ارد گرد نہایت فنکارانہ اور خوبصورت مورتياں بنی ہوئی ہیں۔ مندر کی سیڑھیوں پر بھی نہایت فنکارانہ جالياں اور پھول بیل وغیرہ بنے ہوئے ہے۔
شیام جی کے مندر کے سامنے ہی بھگوان شیو کا بھی ایک بہت بڑا مندر ہے۔ یہ مندر اس طریقے سے بنوایا گیا ہے کہ شيام جي کو بھگوان شنکر کا دیدار ہوتا رہے۔ دونوں مندر انتہائی خوبصورت ہیں اور اتنے قدیم ہونے کے باوجود ان کی فنکارانہ صلاحیتیں اور پینٹنگ مکمل طور محفوظ ہیں۔ شيام جي کا مندر ممکنہ طور دنیا کا واحد ایسا مندر ہوگا جس کی بنیاد میں دوسری موتیوں کے ساتھ ساتھ اذان دیتے اور نماز پڑھتے ہوئے تصویر بھی دکھائی دیتی ہیں۔ جو اس دور میں عام لوگوں کے درمیان کل مذاہب ہم آہنگی کی علامت کے طور پر ہمارے سامنے ہیں۔ وہیں ہر سال ماگھ مہینے میں یہاں لگنے والے میلے کے دوران یہاں کی رونق دیکھتے ہی بنتی ہے۔
ایسے بنا ساكا شيام جي محبت کا مندر
نرسنهگڑھ ریاست کے قریب ایک چھوٹی سی ریاست سانكا ہوا کرتی تھی 16 ویں صدی میں یہاں شیام سنگھ کھینچی نامی بادشاہ حکومت کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی جاگیر میں سولہ کھنبے نامی ایک خوبصورت یادگاری بنوایا جس کی خوبصورتی کے چرچے دہلی تک پہنچے۔ بادشاہ اکبر نے اپنے ایک سپاه سالار حاجی علی کو اس کی حقیقت جاننے بھیجا۔ حاجی علی کو سولہ کھنبے کی خوبصورتی راس نہیں آئی اس نے سولہ کھنبے توڑنے کا فرمان سنا دیا۔ یہ بات بادشاہ شیام سنگھ کو پتہ چلی تو وہ اس سے لوہا لینے پہنچ گئے۔ بد قسمتی سے حاجی علی نے بادشاہ شیام سنگھ کو شکست دے دی اور وہ مارے گئے ۔
شوہر کی موت کے بعد ان کی یاد میں رانی بھاگيہ وتي نے اپنے محل کے سامنے ایک خوبصورت مندرنما یادگاری بنوایا۔ یادگاری بنانے کے لیے راجستھان کے کاریگروں کو بلایا گیا۔ اس طرح شیام سنگھ کھینچی کی یاد میں سانكا شیام مندر کی تعمیر ہوئی۔ راجستھان سے آئے فنکاروں نے پورے دل سے اس مندر کو تعمیر کیا۔ مندر کے چاروں طرف خوبصورت نقاشی کندہ کی ہوئی ہیں۔ پتھروں پر نقش کی گئی نقاشی یوں دکھائی دیتی ہے، جیسے کہ آپس میں باتیں کر رہی ہوں۔ مندر کی بناوٹ میں مالوي اور راجستھانی فن کا واضح اثر بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
مل گیا ہے سیاحتی مقام کا درجہ
گزشتہ چند سالوں میں جب آہستہ آہستہ اس مندر کی شہرت پھیلنے لگی تب ریاستی حکومت نے موسموں کی مار سے برباد ہو رہے اس یادگار کو سیاحتی مقام میں شامل کر محفوظ کرنے کی کوشش شروع کی۔ اچھی بات یہ ہے کی اب اس سیاحتی مقام کی دیکھ بھال آثار قدیمہ سروے محکمہ اور محکمہ سیاحت اجتماعی طور پر کر رہے ہیں۔
کس طرح پہنچے
یہ مندر نرسنهگڑھ سے 20 کلومیٹر دور قومی شاہراہ پر واقع كوٹرا نمک گرام پنچایت میں واقع ہے۔
قریبی ریلوے اسٹیشن: بھوپال
Originally written by Shifalee Pandey. Read here.